This article defines the words “messenger of Allah and ‘risalat’ in both literal and Islamic perspectives followed by a discussion on the characteristics of ‘risalat’ in Islam.
Literal meaning of the messenger of Allah(Rasool) : رسول کے لغوی معنی
رسول کا لفظ ’رسل‘ سے نکلا ہے۔ جس کے لغوی معنی ہیں پیغام پہنچانے والا۔ اللہ تعالی نے اپنے خاص بندوں کو اس منصب پر فائز کیا ہے جو کہ اللہ کے پیغام کو بنی نوع انسان کو آسان الفاظ میں پہنچاتے رہے ہیں۔ ایک روایت ہے کہ! دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔
Literal meaning of Nabi: نبی کے لغوی معنی
نبی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’اہم خبر‘ دینے والا تاہم ’نبی‘ لفظ نبا سے نکلا ہے۔اور اس کے ایک معنی ہیں غیب کی خبریں دینے والا۔یعنی جتنے انبیاء کرام بھی دنیا میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آئے ان سب نے اللہ کے اہم ترین پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ اور وہ اہم ترین پیغام تھا۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔
رسول اور نبی کا فرق
Difference between Messenger of Allah and Prophet
رسول اور نبی میں فرق ہے۔ تمام رسول نبی ہوتے ہیں لیکن تمام نبی رسول نہیں ہوتے ہیں۔
حضرت ابو ذر غفاری بیان کرتے ہیں انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے وہ سب کہ سب رسول تھے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ نہیں۔ان میں سے صرف ۳۱۳ رسول تھے جبکہ باقی سارے نبی تھے۔ (مسند احمد)۔
ارشاد خداوندی ہے کہ کچھ رسول ایسے ہیں کہ جن کا قصہ ہم آپ سے پہلے بیان کرچکے ہیں اور کچھ رسول ایسے ہیں کہ جن کا قصہ ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا۔(النساء۔۴۶۱)
رسول اور نبی میں فرق ہوتا ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا ہے۔ نبوت کچھ آئمہ لغت کے مطابق انبیاء سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں غیب کی خبریں دینے والا۔ یعنی وہ ذات جو اللہ کے حکم سے لوگون کو غیب خاص کی خبریں دے۔ امام تیمیہ نے النبوۃ میں اس پر تفصیلاََ بات کی ہے۔ لوگوں کو نبی غیب بتانے سے بخل نہیں کرتے۔
ارشادخداوندی ہے کہ
ا۔ اللہ غیب کا جاننے والا ہے۔ سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ہے۔مگر ہاں رسول کو۔ (جن۔ ۶۲)
ب۔ یہ غیب کی خبروں میں سے ہیں۔ جو ہم آپ ﷺ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ اور اس سے پہلے آپ ﷺ اسے نہیں جانتے تھے۔(ہود۔ ۹۴)
ج۔ آپ ﷺ سے صرف وہی بات کہی جاتی ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی۔ (حم السجدہ۔ ۳۴)
انبیاء اور نبوہ اور نبی کے تین معنی ہیں
ر۔ غیب کی خبریں دینے والا۔۲۔ بلندی،رفعت،شرف (ہر اعتبار سے شرف)،،سیدھا راستہ(صراط مستقیم کے معنی دراصل رسول اللہ ﷺ ہیں)۔۳۔ علیحدہ یا جد ا۔ (تہذیب لغت۔لسان العربی لغت)
س۔ رسولوں کا درجہ نبیوں سے اونچا ہوتا ہے۔ رسول کی تعلیمات کا دائر ہ وسیع ہوتا ہے وہ اپنی قوم میں کافی عرصہ تک تبلیغ واشاعت کی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ان کو کتاب،صحائف،شریعت،قاعدہ قانون،حلال و حرام کے احکامات دے کر بھیجا جاتا ہے۔اس کے علاوہ رسول ہجرت کرتے ہیں اور ان سے ان کی قوم جنگیں بھی لڑتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں نبی کا دائرہ تبلیغ مختصر ہوتا ہے۔وہ رسول کے جانے کے بعد جب ان کی قوم ان کے پیغام کو بھول جاتی ہے تو اس پیغام کے اعادہ کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔لیکن ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ رسول یا نبی جس قوم پر بھی بھیجے جاتے ہیں ان کا علم،فہم،ذہانت،امانت، شرافت،امامت،دیانت،حسب اور نسب تمام لوگوں سے اونچا اور ممتاز ہوتاہے۔
انسان نے اللہ کو رسولوں کے ذریعے ہی پہچانا ہے۔ اسی لئے اسلام کے سلسلہ عقائد میں توحید کے بعد رسالت کا درجہ ہے۔ رسول کا مطلب ’اللہ کا پیغام پہنچانے والا نبی اور رسول کو اللہ تعالی ان کی قوم میں ہر اعتبار سے فضیلت عطافرماتے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم میں ہر سطح پر بلندی پر تھے۔چاہے ان کا حسب و نسب، خاندان، امانت، دیانت، ذہانت، فطانت، شمائل، فضائل، خصائل، علم و عقل الغرض تمام انبیاء اور رسول تمام صفات میں اپنی قوم سے بلند درجے پر فائز تھے۔
انھوں نے اپنی قوم سے کبھی کسی مسئلے کے حل کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ قوم ان سے مسائل دریافت کرتی تھی۔ پھر بنی نوع انسانیت کو اللہ کے انھی پیغمبروں کے ذریعے سے مختلف علوم و فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی منتقل ہوئی۔ جبکہ پیغمبروں کو علم و حکمت اللہ تعالی بذریعہ وحی بھیجتے اور پیغمبر اس علم کو اپنی قوم کو بیان کرتے تھے۔
ارشاد خداوندی ہے کہ
ا۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ اللہ سے کلام کرے۔ اس کی بات یاتو وحی کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ قاصد کو بھیجتا ہے۔ (شوریٰ۔ ۱۵)
ب۔ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے ہیں۔(نحل۔ ۶۳)
ج۔ ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کا حال آپ کو بیان کردیا ہے۔ اور بعض کا حال ہم نے آپ ﷺ کو نہیں بتایا ہے۔ (مومن۔ ۸۷)
Attributes of a messenger of Allah: منصب رسالت کے اوصاف
تمام انبیاء اور رسل کو اللہ تعالی نے درج ذیل چار اوصاف اور خصوصیات سے منصف فرمایا تھا۔ جو درج ذیل ہیں۔
Humanity: بشریت
دنیا میں آنے والے تما م انبیاء اور رسل انسان (بشر) تھے کیونکہ وہ انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے منتخب کئے گئے تھے لہٰذا اس منصب کے لئے انسان ضروری تھا۔
اسی حوالے سے ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا ۔ حضرت آدم سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب کے سب بشر تھے۔
ارشاد خداوندی ہے کہ اے محمد ﷺ! ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں بھی پھرا کرتے تھے۔ (الفرقان۔ ۰۲)
ب۔ بے شک ہم نے آپ ﷺ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے۔جن کی طرف ہم وحی کیا کرتے تھے۔(یوسف۔۹۰۱)
اے نبی! بے شک ہم نے آپ ﷺ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے انھیں بیویاں اور اولادیں بھی دیں۔ (رعد۔ ۸۳)
ج۔ اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا۔وہ اسی قوم کی بولی بولتا ہوا بھیجا۔ تاکہ وہ رسول ان سے بیان کرے۔(ابراہیم۔۴)
۰ر۔ بے شک آپ سے پہلے بھی رسولوں کی ہنسی اڑائی گئی تو پھر ہنسی اڑانے والوں کو عذاب نے آگھیرا۔(الانعام۔۰۱۔الانبیاء۔ ۱۴)
س۔ آپ ﷺکہیے کہ! اگر زمین میں رہنے والے فرشتے ہوتے جو اطمینان سے اس میں چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر اتاردیتے۔
(بنی اسرائیل۔ ۵۹)
Innocence: معصومیت
جتنے پیغمبر بھی دنیا میں آئے وہ سب کے سب گناہوں سے پاک تھے اور ان کی فطرت میں اللہ نے گناہ سے نفرت رکھ دی تھی تاہم جانے یا ان جانے میں ان سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہو ا۔ رسول اللہ ﷺ جس معاشرے میں پلے بڑھے وہ معاشرہ انتہائی پستی کا شکار تھا اور لوگ کھلے عام گناہ کے کام کرتے اور اس پر فخر بھی بھی کرتے جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ! فرد اپنے ماحول اور معاشرے کے اثرات قبول کرتا ہے لیکن رسول اللہ نے معاشرے کو اپنا استاد نہ بننے دیا بلکہ آپ ﷺ نے خود بہ حیثیت استاد کے تنہا اس پست معاشرے
کی اصلاح کی کیونکہ آپ ﷺ معلم انسانیت بھی ہیں لہٰذا آپ نے لوگوں کو اچھے اور برے کا فرق بتایا۔ اور ایک اجڈ اور گنوار قوم نے بہت جلد آپ کی تعلیمات پر عمل کرکے دنیا کی قیادت کی۔
اسی طرح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر تو بت بنائے جاتے تھے اور ان کی پوجا کی جاتی تھی لیکن آپ نے اس معاشرے کے اثرات کو قبول نہ کیا اور اپنا رخ صرف ایک اللہ کی جانب موڑے رکھا۔
اسی حوالے سے ارشاد خداوندی ہے کہ بے شک سارے انبیاء اور رسل ہمارے منتخب کردہ اور بزرگ تھے۔ (ص۔ ۶)
Bounty of God: وھبیت
رسالت یا نبوت کوئی ایسا منصب نہیں ہے کہ! جس کو محنت،ریاضت یا عبادت کے ذریعے حاصل کیا جاسکے بلکہ یہ اللہ کے خاص اور برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جنھیں اللہ تعالی اس خاص منصب پر فائز کرتے ہیں۔ارشاد خداوندی ہے کہ
ا۔ اللہ اپنی رسالت رکھنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔ (الانعام۔ ۴۳۱)
ب۔ اللہ چن لیتا ہے رسولوں کو فرشتوں میں سے اور جنوں میں سے اور انسانوں میں سے۔ (الحج۔ ۵۷)
ج۔ اللہ کو اپنی پیغمبری کے لئے کس کو منتخب کرنا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ (انعام۔ ۴۲۱)
ر۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس منصب پر فائز کرتا ہے۔ (جمعہ۔ ۴)
Legislator and Interpreter: شارع
شارع کا مطلب ہے کھول کر بیان کرنے والا۔ اور قانون سازی کرنے والا یعنی اللہ تعالی نے انبیاء اور رسل کو جو تعلیمات، کتاب اور صحائف دئے ہیں اس کے احکامات کو کھول کر بیان کرنا، اس کی و وضاحت کرنااور اس میں موجود قانون کا نفاذ کرنا۔ پیغمبر شرعی احکامات کی تشریح آسان اور عام فہم انداز سے کرتے ہیں۔ اور آیات میں چھپے پوشیدہ اسرار کی وضاحت کرتے ہیں۔ مثلاَ۔ نماز،روزہ،حج اور زکوۃ کی وضاحت وغیرہ۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم میں موجود آیات کی وضاحت فرمائی۔
ارشاد ات خداوندی ہیں کہ
ا۔ رسولوں کا ذمہ سوائے کھول کر بیان کرنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ (النحل۔ ۵۳)
ب۔ رسول اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے ہیں بلکہ آپ ﷺ وہی کہتے ہیں جو آپ پر وحی کیا جاتا ہے۔ (النجم۔ ۳۔۴)
ج۔ اور ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن نال کیا ہے۔ تاکہ آپ لوگوں کو وہ تعلیم کھول کھول کر بیان کردیں جو ان کے لئے نازل کی گئی ہے۔تاکہ وہ لوگ غور فکر کریں۔ (النحل۔ ۴۴)
س۔ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے (الٹے) ہاتھ کاٹ دو۔یہ ان کے کئے کی سزا ہے۔اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک تعزیر ہے۔اور اللہ بہت غالب اور نہایت حکمت والا ہے (المائدہ۔۹۳)
ر۔ حدیث میں ہے کہ دوسری دفعہ چوری کرنے پر سیدھا پیر کاٹ دیا جائے گا۔ (کتاب الاآثار۔الحسن شیبانی۔ ص۔ ۸۳۱)
س۔ حکم ہے کہ ڈاکو کے ہاتھ اور پیر کاٹ دئے جائیں۔
۰سرقہ۔۔۔ اس کے اصطلاحی معنی ہیں کہ کوئی عاقل و بالغ شخص چھپ کر کسی کے دس درہم یا اس سے زیادہ مالیت کی چیز کو چرالے۔(فتح القدیر۔ج۔۵۔ ص۔ ۹۳۳۔مطبوعہ دارالکتب العلمیہ۔بیروت۔۵۱۴۱ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی (متوفی ۸۶۶ھ) لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں بھی چور کے ہاتھ کو کاٹ دیا جاتا تھا۔ اور زمانہ جاہلیت میں جس کا ہاتھ سب سے پہلے کاٹنے کا حکم دیا گیا۔وہ ولید بن مغیرہ تھا۔ پھر اللہ تعالی نے اسلام میں بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا کو جاری رکھا۔اور اسلام میں جس چور مرد کا ہاتھ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کاٹنے کا حکم دیا اس کا نام خیار بن عدی بن نوفل بن عبد مناف تھا۔ اور عورتوں میں جس کا ہاتھ سب سے پہلے کٹا ان کا نام مروہ بنت سفیان بن عبد الاسد تھیں۔ان کا تعلق بنو مخزوم سے تھا۔
(الجامع الاحکام القرآن۔ ج۔۳۔ ص۔۱۱۱۔ مطبوعہ دارالفکر بیروت۔۵۱۴۱ھ)