This article defines the meaning of belief in the hereafter and day of judgement in Islam and discusses its importance in personal and collective life. It also differentiates between
The Literal meaning of Akhirah: آخرت کے لغوی معنی
آخرت کے لغوی معنی ہیں بعد میں ہونے والی یاآخری چیز۔جبکہ آخرت کے مقابلے میں لفظ دنیا ہے جس کے معنی قریب کی چیز کے ہیں۔
آخرت کے اصطلاحی تعریف
شریعت کی اصطلاح میں دنیا کی ہر شے فانی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب ہر شے فنا ہوجائے گی اسی طرح سے انسان بھی فنا اور ختم ہوجائے گا کیونکہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے لہٰذا اس کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہاجائے گا جبکہ اس کی روح آسمان میں چلی جائے گی۔ اسی حوالے سے ارشاد خداوندی ہے کہ
۔ متقی ہیں وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ۔ ۴)
دنیا اور آخرت کا فرق
ا۔ دنیا قریب کی چیز ہے ، آخرت بعد کی اور دُور کی چیز ہے۔
ب۔ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔
ج آخرت جزا یا سزا کی جگہ ہے۔
ر۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔
س۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی ہے۔
ش۔ دنیا کی نعمتیں ختم ہوجانے والی ہیں۔ ۰۔ آخرت کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی۔
ص۔ دنیا میں انسان اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔
ض۔ آخرت میں ان اچھے یا برے اعمال کے بدلے میں جنت یا جہنم ہوگی۔
آخرت کے مختلف نام
۔آخرت کے درج ذیل چندنام ہیں۔
(The Last Day)ا۔ الیوم الاخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کا آخری دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔..۔۔
(The Day of Grief) ب۔ یوم الحسرۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسر ت اور افسوس کا دن۔۔۔۔۔
(The Day of Judgement)ج۔ یوم الفصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیصلے کادن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Reality) ر۔ یوم الحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Distress)س۔ یوم عسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سخت دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Promised Day)ش۔ الیوم الموعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن کا وعدہ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
(The Day of Calling and Wailing)ص۔ الیوم التناد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چیخ و پکار کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقوع قیامت،اعمال کی جواب دہی اور جزاو سزا
Day of judgement, accountability، reward and punishment
عقیدہ آخرت کی اہمیت اور وقوع قیامت
یوم آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ قرآن کریم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں عقیدہ آخرت سے متعلق کوئی اشارہ نہ پایا جاتا ہو۔ مثلاََ۔ روز قیامت،حساب کتاب، جنت جہنم، قبر، جزا سزا، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا، جنت کی نعمتوں کا ذکر،دوزخ کی سختیوں کا ذکر، کامیاب اور ناکام لوگوں کے قصے،گزشتہ اقوام پر عذاب کے واقعات وغیرہ۔
اسلام کے تصور آخرت کے مطابق یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن یہ دنیا اور اس میں بسنے والی تمام مخلوق فنا ہوجائے گی۔پھر صور پھونکا جائے گا۔
اسی حوالے سے ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن اسی کی حکومت ہوگی۔(الانعام۔ ۳۷)
ب۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔سوائے جس کو اللہ چاہے سب گھبرا جائیں گے۔(النمل۔ ۷۸)
ج۔ جس دن صور پھونکا جائے گا ہم گناہ گاروں کو اس دن نیلی آنکھوں کے ساتھ اکھٹا کریں گے۔ (طہ۔ ۲۰۱)
۔ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو تم فوج در فوج چلے آو گے۔ (النباء۔ ۸۱)
ر۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کفار سے مکہ سے یہ کہا کہ! یہ دنیا فانی ہے۔اور یہاں سے ایک دن ہم چلے جائیں گے اور روز قیامت ہم دوبارہ اٹھیں گے۔تو کفا ر مکہ نے یہ کہا کہ! بھلا ہم اور ہمارے باپ دادا جو کہ مٹی ہو چکیں وہ بھلا دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے۔
اس پر ارشاد خداوندی ہوا کہ
ا۔ انھوں نے کہا کہ! جب ہڈیاں بوسیدہ ہوکرگل جائیں گی۔ تو ان کو کون زندہ کرے گا؟آپ ﷺ کہیے کہ! ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔اور وہ ہر پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔(یسین۔ ۸۷۔۹۷)
ب۔تو کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ وہ اپنے ازسر نو پیدا ہونے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ (ق۔ ۵۱)
ج۔ عقیدہ آخرت پر ایمان لانا تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے تاکہ دنیا میں اچھے اعمال کرکے اپنے آخریٹھکانے پر کامیابی سے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو بہترین طریقے سے بسر کرے۔
س۔ تاہم خیر اور شر کی قوتیں ہر وقت انسان کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ ایک لاکھ چوبیش ہزار پیغمبروں کو د میں بھیجنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انسانوں کو یہ بتائیں کہ اپنے شر پر قابو رکھتے ہوئے خیر کو پھیلائیں اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔
اگرچہ تمام پیغمبروں کی دنیا میں آمد، الہامی کتب کے نزول اور عبادات و قاعدے قوانین کی پابندی کے پیچھے دراصل ااخرت کی کامیاب زندگی کا حصول ہے۔ اسی لئے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھول دیا ہے تاکہ جو کوتاہی یا غلطی اور گناہ ان سے جانے یا انجانے میں سرزد ہوجاتے ہیں ان پر وہ اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرلیں۔ تاکہ انسانوں کے کبیرہ صغیرہ گناہوں کو مٹا کر انھیں داخل جنت کیا جاسکے۔ کیونکہ انسان کا اصل ٹھکانہ تو جنت ہی ہے جہاں سے وہ اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے۔
Deeds, Accountability and Day of Judgement
اعمال کی جواب دہی اور سزاو جزا
انسان دنیا میں جو بھی اچھے یا برے اعمال کرتا ہے اس کی جزا یا سزا اسے قیامت کے دن مل کررہے گی۔ اسی لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے۔کیونکہ رائی کے دانے کے برابر اعمال کو بھی ترازو میں تولا جائے گا اور اس شخص کو اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ اسی حوالے سے چند ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔ (النحل۔۷۹)
ب۔ جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے۔اور زینت ہے اور ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے۔ (الحدید۔ ۰۲)
ج۔ دوڑو! اپنے رب کی کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی پنہائی کی مثل ہے۔ (الحدید۔ ۱۲)
س۔میں تمام (کافر) جنات اور انسانوں سے ضرور جہنم کو بھر دوں گا۔ (ہود۔۹۱۔ السجدہ۔ ۳۱)
ش۔ اللہ تعالی کسی پر رائی کے دانے کے ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (النساء۔ ۰۴)
ص۔ ائے ابلیس! میں تجھ سے اور تیرے تمام متبعین سے جہنم کوو بھر دوں گا۔ (ص۔ ۵۸)
ض۔ آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (الکہف۔ ۹۴)
ط۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے تو بے شک ہم ان کے نیک اعمال کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔ (الکہف۔ ۰۳)
ظ۔ جب تک ہم رسولوں کو نہ بھیج دیں۔ہم کفار پر عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں۔(بنی اسرائیل۔ ۵۱)
ع۔ کیا جولوگ برے کام کرتے ہیں۔انھوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ! ہم ان کو ان لوگوں کی مثل کردیں گے جو ایمان لائے۔اور انھوں نے نیک اعمال کئے۔ان کا مرنا اور جینا برابر ہو جائے گا۔۔وہ لوگ یہ کیسا برا فیصلہ کررہے ہیں۔ (الجاثیہ۔ ۱۲)
قرآن کریم کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت
Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Holy Quran
قرآن کریم میں جابجا عقیدہ ااخرت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان اس دنیا کی گہماگہمی میں دنیا میں آنے کے مقصد کو نہ بھول جائے چنانچہ اسی حوالے سے ارشادخداوندی ہے کہ
ا۔ اللہ کے اذن کے بغیر کسی نفس کے لئے مرنا ممکین نہیں۔(آل عمران۔ ۵۴۱)
ب۔ اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ۔ ۱۸۲)
ج۔ قیامت تم پر اچانک ہی آئے گی۔(اعراف۔ ۷۸۱)
س۔اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کردیا۔پس ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت آیا۔یا جس وقت وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو اس وقت ان کی یہی چیخ و پکار تھی کہ ہم ظالم تھے۔ (اعراف۔۴۔۵)
ش۔ اللہ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور اس کا عذاب بہت سخت ہے۔ (النساء۔ ۴۸)
۶ص۔ قیامت کے دن سب زمینیں اس کی مٹھی میں ہوں گی۔اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔(الزمر۔ ۷۶)
ض۔ کفار ہمارے پاس جو بھی اعمال لے کر آئیں گے۔ہم ان کو فضاء میں بکھرے ہوئے غبار کے ذرے بنادیں گے۔(المائدہ۔ ۵)
ع۔ کفار کے عذاب میں نہ تو تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔ (البقرہ۔ ۶۷)
غ۔ وہ مردوں کو زندہ کرنے پر ضرور قادر ہے۔کیوں نہیں بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الاحقاف۔ ۳۳)
ف۔ اگر تم تعجب کرو تو باعث تعجب تو ان کا یہ قول ہے کہ! کیا ہم مٹی ہوجانے کے بعد ازسر نو پیدا ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔ اور یہی دوزخی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(رعد۔ ۵)
ق۔ (یہود کہتے ہیں کہ) ہمیں دوزخ کی آگ صرف چند دن چھوئے گی۔ (آل عمران۔۴۲)
ک۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔(النحل۔۷۹)
Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Ahadith
احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت
آخرت کی اہمیت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
ب۔ جہنم کی آگ سے زیادہ کوئی شے خطرناک نہیں۔
ج۔ جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ وہاں ہمیشہ خوش رہیں گے۔
س۔ جنت دکھ اور مصائب میں گھری ہوئی ہے۔
ش۔ جہنم خواہش نفس میں گھری ہوئی ہے۔
ص۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جب کوئی شخص انتقال کرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ سوائے تین اعمال کہ اس کا نیک عمل۔ اس کانفع بخش علم اور صالح اولاد (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۱۳۶۱)
ض۔ حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جس شخص نے اسلام میں کسی نیک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اپنی نیکیوں کا بھی اجر ملے گا اور جن لوگوں نے اس نیکی پر عمل کیا ان کا اجر بھی اس کو ملے گا (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۷۱۰۱)
سو جس نے اپنی اولاد کو نماز سیکھائی،اس کی نمازوں کا اجر بھی اس کو ملے گا۔ جس نے اپنی اولاد کو صدقہ اور خیرات کرنا سیکھایا،جس نے دینی مسائل سیکھائے یا جس نے کوئی دینی کتاب لکھی تو اس کو پڑھ کر عمل کرنے والوں کو بھی اجر ملے گا اور لکھنے والے کو بھی اجر ملے گا۔
ط۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی بیان کرتے ہیں کہ! بنو سلمہ کے ایک شخص نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد کیا کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے ساتھ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، تم ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ ان کے لئے مغفرت طلب کرو، ان کی وفات کے بعد ان کے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرو، جن رشتہ داروں کے ساتھ وہ نیکی کیا کرتے تھے،ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے دوستوں کی تکریم کرو (سنن ابو داؤد۔ رقم الحدیث۔ ۲۴۱۵)
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمھاری مدت اتنی ہے جیسے عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت ہو۔
(مجمع الزاوئد۔ ج۔ ۰۱۔ ص۔ ۱۱۳)
حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ! مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی مثل ساتھ ساتھ بھیجا گیا ہے۔آپ ﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ساتھ ساتھ ملا کر فرمایا (مسند احمد۔ ج۔ ۵۔ ص۔ ۸۴۳)
انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں عقیدہ آخرت کے اثرات
عقیدہ آخرت کے انفرادی زندگی پر اثرات
Impact of Belief in Akhira and Day of Judgement on an Individual
انسان میں جب یہ یقین کامل ہو کہ ایک دن ہمیں یہاں سے جانا ہے تو انسان اسلام کی حدود میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا کہ اس کے ہر عمل سے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ عقیدہ معاشرے میں کمزور پڑ جائے تو معاشرہ طرح طرح کی برائی کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ظلم و ستم،ناانصافی،دھوکہ، جھوٹ سرکشی، نفرت، عداوت،قتل وغارت گری وغیرہ پھلنے پھولنے لگتی ہے۔
چنانچہ عقیدہ آخرت کے عقیدے کی مضبوطی سے افراد کی کردار سازی ہوتی ہے اور اس میں درج ذیل خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔
ا۔ وہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
ب۔ فرد میں نیکی اور عبادات کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
ج۔ وہ بے حیائی اور بدکاری سے بچتا ہے۔
س۔ دنیا کی محبت اس کے دل میں کم ہوتی ہے جبکہ آخرت کا ڈر اور اس کی تیاری اس کے پیش نظر رہتی ہے۔
ش۔ فرد کا تعلق اپنے رب سے مضبوط ہوتا ہے۔اور اس کے دل میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔
ص۔ فرد کا توکل اللہ پر بڑھتا جاتا ہے جبکہ اس کا بھروسہ دنیا اور اہل دنیا پر سے کم ہوجاتا ہے۔
ض۔ فرد اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار کی کثرت کرتا ہے۔
ط۔ اللہ کی مخلوق سے پیار اور ہمدردی کرتا ہے اور ان کے کام آنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
ظ۔ فرد اللہ کے بتائے ہوئے قاعدے قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور ہر برے کام سے رکتا ہے۔
ع۔ فرد میں صبر وشکر کے جذبات بڑھتے ہیں اور وہ اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے جبکہ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرتا ہے۔
غ۔ فر د ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے اور اللہ اس کو جس حال میں رکھتا ہے اس حال پر وہ خوش اور مطمئن رہتا ہے۔
Effects of belief in Akhirah and Day of judgement on Society
عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر اثرات
ا۔ عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر بھی مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ب۔ افراد میں اجتماعی عبادات کا شعور اور شوق بیدار ہوتا ہے۔
ج۔ گناہوں سے بچنے کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔اور افراد میں سماجی طور پر ایک دوسرے کی کردار سازی اور نیکی کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کیاچھی عادت پیدا ہوتی ہے۔
س۔ سماج میں اسلامی اقدار کو فروغ حاصل وہتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے اخلاق پر نظر رکھی جاتی ہے۔
ش۔ معاشرتی سطح پر خدمت خلق اور مخلوق خدا کے ساتھ محبت اوران کی خدمت کے شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ص۔افراد کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ض۔ جس سماج میں عقیدہ آخرت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے وہاں گناہ اور جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔