تحریر دیدار علی
کبھی کبھار جب میں اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ کیسا معاشرہ ہے؟ بظاہر یہ ایک انسانی معاشرہ ہے مگر بعض لوگوں کی بنیادی اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں دیکھ کر اسے انسانی معاشرہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ بنیادی انسانی اقدار سے عاری بعض لوگوں کو اگر حیوانوں کی کیٹیگری میں شامل کیا جائے تو میری نظرمیں یہ حیوانات کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔
اس بات کی وضاحت کے لئے زیادہ دور نہیں جاتے ہیں بلکہ حال ہی میں ضلع غذر کے علاقے چھشئ نالے میں ہونے والے واقعے کو ہی لیجئے جس میں ایک ظالم باپ نے ڈیڑھ سالہ اپنی معصوم بچی کو بے دردی سے زبح کردیا تھا۔
دوسرا بڑا سماجی مسئلہ لوگوں میں دوغلے پن کا پایا جانا ہے۔ جب کوئی معصوم بچی ڈانس کرتی ہے تو سب گالیاں دینا شروع کرتے ہیں۔ ہر کوئی منہ اٹھا کر کفر کا فتواء دینے اور ثقافت کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتاہے۔
جب بھی کسی خاتون کی ڈانس کی ویڈیو منظر عام پر آتی ہیں تو چوری کرنے والا، دھوکا دینے والا، ناجائز ذرائع سے کمانے والا، امتحان میں نقل کرکے پاس ہونے والا یعنی سماج دشمن کرتوتوں میں ملوث تمام افراد یکدم پرہیز گار اور متقی بن کر ڈانس کرنے والی خاتون کو گالم گلوچ کے ساتھ کفر و دوذخ کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی مذہب کو صحیح معنوں میں نہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی ہے اور نہ کبھی اسلامی تعلیمات کا خود مطالعہ کیا ہوتا ہے۔ انہیں بس ایک ہی کام آتا ہے اور وہ ہے دوسروں پر کفر کے فتوے جاری کرنا۔
معاشرے میں خواتین دشمنی کا یہ عالم ہے کہ یہاں مردوں کی ایک بڑی تعداد سب سے زیادہ خوفزدہ کسی شیر یا جانور سے نہیں بلکہ ایک باشعور و با ہمت خاتون سے ہے۔ ایک باشعور و باہمت خاتون جب اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتی ہے تو منافقت پر مبنی یہ پدرشاہی نظام لرزنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر آواز بلند کرنے والی عورت کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہی وہ وجہ ہے کہ یہاں مرد خواتین کی آواز کو دبا دیتا ہے۔ انکو گھروں بند رہنا اور ہر ظلم سہنا سکھایا جاتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ خواتین کو اپنے حق کے لئے بولنا سیکھایا گیا ہو
ہمارے معاشرے میں گرتی ہوئی انسانی اخلاقایات کا انداز یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو روز قبل گلگت شہر میں بچوں کی فحش فلمیں بنانے والے گروہ کا انکشاف ہوا ہے تاہم اس حوالے سے لوگوں کو بہت کم بات کرتے ہوئے دیکھا۔
سوائے چند صحافی حضرات اور کچھ حق پرست دوستوں کے علاوہ سب کے منہ پر تالے ہوئے ہیں۔ کم از کم ذمہ دار اداروں سے اس حوالے سے وضاحت کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ کہاں ہیں وہ غیرت بریگیڈ جس کی غیرت صرف کسی خاتون کے رقص کرنے پر ہی جاگ جاتی ہے۔
تف ہے جو دین اور ثقافت کے ٹھیکیداروں کی طرف سے کوئی ایک بیان جاری ہو جائے۔ یہ لوگ ایک پانچ سالہ لڑکی کے رقص کرنے پہ پورے علاقے کو سر پہ اٹھاتے ہیں مگر مبینہ طور پر بچوں کی پورنو گرافی جیسی نہایت ہی قبیح اور مذموم واقعے پر سب کے منہ پر چپ کے تالے لگے ہوئے۔
کیا پورنو گرافی کفر نہیں؟
کیا یہ ثقافت کے منافی نہی؟
کیا اس کی اجازت ہے مذہب میں؟
واقعے کی منظر عام پر آنے کے بعد سے اب تک خاموشی سے یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ اس قبیح فعل میں ملوث عناصر کو چھپایا جارہا ہے۔ ورنہ تو پولیس چھوٹے سے چھوٹے چور کو پکڑے تو بھی ان کے ساتھ تصاویر بناکر سوشل میڈیا پہ ڈال دیتی ہے اور داد حاصل کرتی ہے مگر چائلڈ پورنوگرافی کے جرم میں گرفتار ملزمان کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جارہا ۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے کہ گلگت کے ایک سکول میں ایک بچے کو گرفتار کیا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ ان نے سکول سے سریہ چوری کرتے پکڑا گیا تھا۔ پولیس اور سکول کے عہدیداران نے بچے کو پکڑنے کے بعد اس کے ساتھ تصویر بناکر فخر محسوس کر رہے تھے۔
مجھے ان کو دیکھ کہ افسوس ہورہا تھا۔ اس بچے کو کسی سکول میں داخل کرانے کے بجائے تھانہ لے گئے اور یہ سوچ کے تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی جیسے انہوں نے کوئی کمال کا کام کیا ہو۔ یہ کمال نہیں بلکہ ہماری ذہنی پستی ہے۔ کمال تو تب ہوگا جب پولیس بچوں کی فحش فلمیں بنانے والوں کو پکڑ ان کی شناخت پبلک کریں۔
چائیلڈ رائٹس پر کام کرنے والے ادارے اور تمام حق پرست لوگوں سے گزارش ہے کہ ان ملزمان کی سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کریں اور انکی شناخت کو پبلک کرنے کی ڈیمانڈ کریں تاکہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک حرکت کرنے کی جرات نہ کریں۔
ان ملزمان کو عدالت میں لے جانا چاہئے اور پبلک کو بھی بتا دیا جائے کہ آخر یہ انسان نما جانوروں کی شکلیں کیسے دکھتی ہے تا کہ ہم سب آگاہ ہوں۔