تحریر:دیدار علی
اربوں برس پہلے وجود میں آٸی ہوٸی ہماری اس زمین نے مختلف نوعیت کی تبدیلیوں کا سامنا کیا ہے۔ کبھی یہ گرم گیسوں کا غبارہ رہی تو کبھی اس نے کروڑوں برس برف کی چادر اوڑھے رکھی۔ کرہ ارض پر وقوع پزیر ان تبدیلیوں نےنباتات، حیوانات نیز ہر طرح کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کے بھیانک اثرات کوئی نئی بات نہیں تاہم آج کے برعکس ماضی میں درجہ حرارت میں اضافے میں انسان کا کردار کم اور قدرت کا زیادہ تھا۔ گزشتہ چار لاکھ برس کے دوران یہ درجہ حرارت آج کےمقابلے میں4 تا 8 درجہ کم رہا تاہم اس دوران کئی دفعہ زیادہ حدت کے دورانیے بھی آئے۔ ان تبدیلیوں نے ہمیشہ بارشوں کا نظام متاثر کیا۔ وسیع وعریض صحراؤں کی ہیٔت تبدیل کی اور سرسبز و شاداب میدان تشکیل دئیے۔
درجہ حرارت میں اضافہ چاہے وہ قدرتی ہو یا اس میں انسانی عمل دخل ہوں دونوں صورتوں میں موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ آج کے دور میں جس موسمیاتی تبدیلی کی بات ہورہی ہے اس میں انسانی عمل دخل زیادہ شامل ہے۔
زمین کی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ ہے جو دوسرے گرین ہاٶس گیسوں کے ساتھ مل کر ایک تہہ بنالیتے ہیں جو زمین پر پیدا ہونے والی حرارت کو خلاء میں جانے سے روکتے ہیں۔
آج کاشت ، صنعت اور دیگر انسانی سرگرمیوں کے لئے جنگلات کی صفائی سے گرین ہاؤس گیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی تابکاری کے اصل ذمہ دار گنتی کے چند ترقی یافتہ ممالک ہیں جن میں امریکہ اور چین سرفہرست ہیں مگر اس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر ترقی پزیر اور تیسری دنیا کے ممالک ہیں۔
آج گلگت بلتستان موسمیاتی تبدیلی کے انتہائی ہولناک اثرات کی زد میں ہے۔ چند دن پہلے ضلع غذر کے سب سے بڑے گاؤں شیرقلعہ نالے میں شدید طغیانی کے بعد سیلاب نے گاوں میں تباہی مچادی۔ سیلاب میں ناقابل تلافی انسانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ سینکڑون گھر تباہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ مزید براں بجلی گھر،ہوٹلوں دکانوں، فش فامز اور سینکڑوں کنال اراضی کی زمین تباہ ہوکر رہ گئی ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع غذر کے تحصیل یاسین کے علاقے تھوئی تھلتی میں خیمت نالے سے آنے والے سیلاب نے بھی سڑکوں، پلوں ، گھر، دکانوں اور زرعی زمینوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے سیلاب نے مشبر نالے کاراستہ روک کر جھیل کی شکل اختیار کرلی ہے۔
اسی طرح پچھلے مہینے وادی ہنزہ میں شیشپئر گھلیشئر سے بننے والی جھیل کے پھٹنے کی وجہ سے حسن آباد میں ایک درجن گھر اور ہزاروں درخت، سینکڑوں کنال اراضی سمیت قراقرم ہائے وے پر واقع پل تباہ ہوا تھا۔ سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے ہنزہ آنے والے غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس سے سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کو معاشی نقصان آٹھانا پڑا۔
یہ سب موسمی تبدیلی کے اثرات ہیں جو گلگت بلتستان پر مرتب ہو رہے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے ابھی تک موسمیاتی تدیلی کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے حکومت اور ذمہ دار ادارے کوئی خاطر خواہ اقدامات کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔گلگت بلتستان میں ایکسکیویٹر کے ڈرائیور بھی دیگر صوبوں سے ہیں جن کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ مشینینں بھی کام نہ آسکی ہیں۔
اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ممکنہ قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے لئےٹھوس بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی دہائی میں گلگت بلتستان ناقابل آباد ہوجائےگا۔ ہمارے گلیشیر زیادہ شدت کے ساتھ پگھلتے رہیں گے اور سیلابی صورتحال علاقے میں لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنادے گی۔
اب ہمیں سوال یہ ہے کہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کی ہولناکیوں سے بچنٕے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟
سب سے ضروری بات یہ سمجھنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک بندے ملک یا علاقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے لہذا سب نے مل کر اس کے حل کے لۓ کام کرنا ہے۔
گلگت بلتستان کی سطح پر کیا کیا جاسکتا ہے؟ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک قابل عمل جامع پالیسی بنائے۔اس پالیسی کے تحت موجودہ جنگلات کے تحفظ کے ساتھ نئے جنگلات اور درختوں کی تعداد میں اضافے کے لئے میکینیزم ترتیب دیا جائے۔ کیمیائی کھادوں، زہریلی اوردیگر کیمیائی مادوں کا استعمال کم سے کم کرنے کے لئےمتبادل طریقے اپنائے جائیں۔ بالائی آبگاہیں، دریا، جھیلیں، اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سائینسی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے۔
درج بالا اقدامات کے ذریعے ہم آئندہ کی نسلوں کے لئے ایک صحت مند اور محفوظ ماحول وراثت میں چھوڑ سکتے ہیں۔ حکومت وقت، سرکاری و غیر سرکاری ادارے، سول سوسائٹی اور سماج کو بحیثیت مجموعی اس فرض کی ادائیگی کے لئےابھی سے عمل میں آنا پڑے گا۔